سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ہمارے شہر میں قبرستان کے لئے الگ الگ مقامات پر کئی زمین وقف ہیں، جن میں سے آدھے سے بھی کم زمین استعمال میں ہیں اور آگے بھی بظاہر ان کے استعمال کی نوبت آنے کی امید نہیں، کیونکہ جتنی زمین استعمال میں ہے وہی بہت زیادہ باقی ہے تو کیا اس کے کچھ حصہ میں دکان تعمیر کرکے اس کی آمدنی قبرستان ہی کی ضروریات میں لگا سکتے ہیں ؟بعضوں کی رائے ہے کہ چونکہ وہ زمین بائی پاس روڈ پر ہے اورآس پاس میں کوئی مسجد نہیں ہے تو وہاں مسجد بنادی جائے،اس سلسلہ میں شرعاً کیا حکم ہے ؛بتلائیں ۔
حبیب اللہ عباد مفتاحی،دھرمپور،تامل ناڈو
الجواب وباللہ التوفیق :
صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ زمینیں قبرستان ہی کے لئے وقف کی گئی ہیں اورآئندہ
ان زمینوں میں مرحومین کی تدفین بھی ہوسکتی ہے تو اس موقوفہ زمین پر دکان وغیرہ
تعمیر کرکے کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے، بلکہ ان زمینوں کوصرف مردوں کی تدفین میں استعمال کرنا لازم ہے۔
نیز جب مالکان نےوہ زمین قبرستان
کے لئے وقف کی ہے تواس میں صرف میت کی تدفین
ہوگی،اس جگہ کو کسی اور مقصد کےلئےاستعمال کرناحتی کہ مسجدوغیرہ کی تعمیر کرنابھی
جائز نہیں ہوگا،لہذااس میں کسی بھی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔
چنانچہ فتاویٰ
رحیمیہ میں ہے ؛
”یہ بات سمجھ لی جائی کہ
واقف نے جس مقصد سے اپنی زمین وقف کی ہو،اس وقف شدہ زمین کا استعمال واقف کی منشاء
کے مطابق ہونا ضروری ہے ، اس میں تبدیلی
کرنا اور واقف کی منشاء کے خلاف عمل کرنا جائز نہیں ہے،شامی میں ہے: شرط الواقف کنص الشارع. (شامی۳؍۵۷۵)نیز شامی میں ہے: صرحوابان مراعاۃ غرض الواقفین واجبۃ. (شامی۳؍۵۸۵) قبرستان مردوں کی تدفین کے لئے وقف ہوتا ہے ، لہذا قبرستان کی
پوری زمین اسی مقصد میں استعمال ہونا
چاہئے، اس کے علاوہ دوسرے کاموں میں وقف شدہ قبرستان کی زمین استعمال کرنا درست نہیں ۔“ (فتاویٰ
رحیمیہ:۵؍۹۴،۹۵،مکتبۃ الاحسان ،دیوبند)