سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
قرآن مجید(سورۃ الحدیدآیت نمبر ۱۱)میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللہَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ.(کوئی شخص ہے؟ جو اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح قرض کے طور پر دے،پھراللہ تعالیٰ اس کواس شخص کے لئے بڑھاتا چلا جاوے اوراُس کے لئے اجر پسندیدہ ہے۔ )
یہاں”بڑھاتاچلاجاوے“سےمرادقرض کی رقم میں اضافہ کرناہے،مجھےیہ معلوم کرنا ہے کہ یہ رقم جو زیادہ ملے گی وہ سودشمار ہوگی، جوناجائز اورحرام ہے،کیونکہ اضافہ کےساتھ قرض کی ادائیگی یقیناًسودہے،مفتیانِ کرام براہِ کرم دلائل کےساتھ بتائیں کہ قرض میں یہ اضافہ کیوں سودنہیں ؟
پی ،نثاراحمد
الجواب وباللہ التوفیق :
بندے کی نیکی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب میں اضافہ سود نہیں ہے ،اس لئے کہ بندہ کے نیک عمل اور راہِ خدا میں خرچ کرنے کو مجازاًقرض قرار دیا گیا ہے؛حقیقۃً نہیں،کیونکہ بندہ جو کچھ بھی خرچ کرتا ہے وہ سب اللہ کی ملک ہے، جب ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہےتوظاہرہےکہ مجازاً قرض کہا گیا ہے اور قرض سے تعبیر کرنے میں ایک بڑی حکمت ہے،وہ یہ کہ عموماً قرض کی واپسی یقینی ہوتی ہے،لہذا ہر نیکی اور کارِخیر میں خرچ کرنے کا بدلہ بھی یقینی طور پر ملے گا،اس لئے یہ اضافہ یقیناًسود نہیں۔
( مستفاد از: آسان بیان القرآن ۲۵۱/۱)