حلال و حرام Fatwa No: 23
قدم بوسی کی شرعی حیثیت

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ

بعض لوگ  کہتےہیں کہ بزرگوں کی قدم بوسی  کرسکتے ہیں،مجھےیہ  معلوم کرنا ہے کہ  شریعت میں قدم بوسی  جائزہے یا نہیں ؟

اعجازاحمد،پلی کنڈہ

الجواب وباللہ التوفیق :

 فقہاءِ کرام نے بزرگانِ دین اورصلحاءِ امت(جن کے عقیدے صحیح ہوں اوروہ متبعِ شریعت ہوں،اُن)کی قدم بوسی کی مشروط اجازت دی ہے،لیکن عام حالتوں میں ان شرطوں  کا لحاظ نہیں رکھاجاتا ہے،اس لئے قدم بوسی سےبچنازیادہ بہترہے،  نیز دوسروں کےعقیدہ خراب ہونےاورمبتلاءِ فتنہ ہونےکاخطرہ ہے، لہذا احتیاط اِسی میں ہے  کہ اس سے بچا جائے ۔

عن عبد اللہ بن بريدة،عن أبيه أن رجلا أتى النبي ﷺ فقال: يا رسول اللہ!علمني شيئا أزداد به يقينا.قال: فقال: أدع تلك الشجرة. فدعا بها فجاءت حتى سلمت على النبي ﷺ، ثم قال لها: ارجعي، فرجعت قال: ثم أذن له فقبل رأسه ورجليه. (المستدرك للحاكم:۷۳۲۶)

عن أنس قال: قال رجل: يا رسو ل اللہ! الرجل منا يلقى أخاه أو صديقه أينحني له؟ قال: لا . قال: أفيلتزمه ويقبله؟ قال: لا . قال: أفيأخذ بيده ويصافحه؟ قال: نعم.(سنن الترمذي :۲۹۲۵)

  وما كان سببا لمحظور فهو محظور.(ردالمحتار:۹؍۵۰۴،زکریا دیوبند)

                                                                           (مستفاد :فتاوی محمودیہ:۱۹؍۱۳۲،کفایت المفتی :۱۲؍۲۳۷-۲۵۲)

حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ نےدست بوسی اورقدم بوسی پرایک رسالہ  لکھاہے،جس میں دلائل ذکر کرنے کے بعد بطورِخلاصہ تحریر فرماتے ہیں:

”رسول اللہ ﷺ اور صحابہ و تابعین کے جو واقعات آپ نے اس رسالے میں ملاحظہ فرمائے، اس کو اسی درجے میں رکھنا ضروری ہے، جس درجے میں سنت اور تعاملِ سلف سے اس کا ثبوت ہوا ہے،ان تمام روایات و واقعات کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کام ہوئے،مگر اتفاقی طور پر کسی ایک دو آدمی نے کر لیے،نہ اس کی عادت تھی، نہ سب مجمع کو یہ کام کرنا تھا، نہ کوئی کسی کو اس کی دعوت دیتا تھا اور نہ کوئی کسی کی حرص کرتا تھا، بس اسی سادگی اور عدم پابندی کے ساتھ جہاں ہوں،جائزاور درست بلکہ مستحب بھی ہوسکتا ہے،جہاں یہ سادگی نہ رہی پابندی آگئی یا عادت پڑ گئی تو وہ مفاسد سے خالی نہیں ۔“ (جواہرالفقہ :۱؍ ۵۵۴)