سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
الجواب وباللہ التوفیق :
جو شخص روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھے اور نہ ہی فدیہ دینے کی، ایسا شخص اپنی پوری زندگی میں جب بھی فدیہ دینے کی طاقت و قوت حاصل کر لے ضرور فدیہ ادا کرے،ورنہ اپنے وارثین کو وصیت کر جائے کہ اس کےتركہ سے فدیہ ادا کریں،اوراگر اس کے پاس موت تک مال نہ رہے اور نہ ہی کوئی ترکہ چھوڑے تو اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما دیں گے۔
(مستفادازفتاویٰ دارالعلوم۲۹۶/۱۰)
(ب) جو شخص نہ بیمار ہو اور نہ سفر پر، صرف کام کی مشقت اور دھوپ کی شدت کی وجہ سے روزہ رکھنا اس کے حق میں دشوار ہو تو ایسے شخص کے لئے کوئی چھوٹ نہیں ہے، اس کے ذمہ روزہ رکھنا واجب ہے ،گرمی کی شدت اور کام کی سختی پر اس کے اجر و ثواب میں اضافہ ہوگا ۔
(مستفاداز فتاوی محمودیہ ۲۰۲/۱۰)
اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مولانا یوسف صاحب لدھیانویؒ فرماتے ہیں کہ کام کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی تو اجازت نہیں، اس لئے روزہ تو رکھ لیا جائے لیکن جب روزے میں حالت مخدوش و پریشان کن ہو تو روزہ توڑ دو اِس صورت میں قضا واجب ہوگی،کفارہ لازم نہیں آئے گا ۔اَلْمُحْتَرِفُ الْمُحْتَاجُ إلَى نَفَقَتِهِ عَلِمَ أَنَّهُ لَوْ اشْتَغَلَ بِحِرْفَتِهِ يَلْحَقُهُ ضَرَرٌ مُبِيحٌ لِلْفِطْرِ يَحْرُمُ عَلَيْهِ الْفِطْرُ قَبْلَ أَنْ يَمْرَضَ.
(فتاوی ہندیہ بحوالہ آپ کے مسائل اور ان کا حل۵۶۳/۴)
اوراللہ تعالی کاارشاد :يُرِيْدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ.(اللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ آسانی منظور ہے اور تمہارے ساتھ دشواری منظور نہیں ۔) اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ بیماری اور سفر کی حالت میں قضا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اور بالکلیہ طاقت ہی نہ رہے اور آئندہ صحت کی کوئی امید بھی نہ ہو تو فدیہ دیدینادرست ہے ۔