سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ہم کل دو بھائی اور تین بہنیں؛ ایک بہن ریحانہ بیگم پیدائشی کمزور ہیں، خدمت کی محتاج ہیں اور نکاح بھی نہیں ہوا،ہماری دو بہنیں ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور ہم بھی حسبِ ضرورت خرچ کرتے ہیں اور ریحانہ بیگم ایک جگہ اور بیس اشرفی زیور کی مالکہ ہیں جو ان کو وراثت میں ملی ہے،پوچھنا یہ ہے کہ چونکہ دو بہنیں ان کی خدمت کر رہی ہیں ،اس لئے ان کامطالبہ ہے کہ ریحانہ بیگم کی جگہ اور زیور ان دونوں کے نام لکھ دیں ، اور یہ کہتی ہیں کہ تم بھائیوں کے مرنے کے بعد تمہارے بچے اس جگہ اور زیور کا کیا کریں گے؟ معلوم نہیں، ہو سکتا ہےکہ ہم کو بالکل محروم کر دیں،جبکہ ان کے مطالبہ کے مطابق اگر جگہ اور زیور دونوں بہنوں کے نام کرنے سے ریحانہ بیگم بے مال وبے گھر ہو جائیں گی،اس کے بعد ان کی کوئی حیثیت بھی نہ رہے گی، تو کیا ہم دو بھائی اس جگہ اور زیورکو دو بہنوں کے نام لکھ سکتے ہیں؟ اس طرح کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟نیز ریحانہ بیگم کو ہوش اور سمجھداری بھی نہیں ہے،امید ہے کہ آنجناب جواب عنایت فرما کرعند اللہ مأجور ہوں گے۔
الجواب وباللہ التوفیق :
بر تقدیرِ صحتِ واقعہ صورت مسئلہ میں کہ جب تک آپ کی بہن ریحانہ بیگم باحیات ہیں مال ان ہی کی ملکیت میں رہے گا،ان کی زندگی میں دیگر بھائی بہنوں کے درمیان تقسیم کرنا شرعاً درست نہیں اورجو بھائی بہن معذور بہن ریحانہ بیگم کی کفالت کر رہے ہیں وہ ریحانہ بیگم پر ان کے مال سےہی خرچ کریں گے، ریحانہ کی زندگی کے بعد ہی ان کا مال وراثت کے قانون کے مطابق وارثین میں تقسیم ہوگا ،اگر بھائیوں کی اولاد؛ریحانہ کی بہنوں کو ریحانہ بیگم کے ترکہ سےان کی وراثت نہیں دےگی تو وہ سخت گنہگار ہوں گے اورآخرت میں ان کا مواخذہ ہوگا۔
والمعتبر فيه أي الرحم المحرم أهلية الإرث لا حقيقته إذ لا يتحقق إلا بعد الموت (فتاویٰ شامی۵ /۳۶۵ زکریا) فإن نفقة المملوك على مالكه والغني في ماله الحاضر(فتاویٰ شامی ۵ /۳۳۷ زکریا) عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺمَنْ قَطَعَ مِيْرَاثَ وَارِثِهِ قَطَعَ اللّٰهُ مِيْرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ .(مشکوۃ المصابیح باب الوصایا:۲۶۶)
(مستفاد از کتاب النوازل :۱۸؍۳۳۳،۴۹۵)