اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے ایک اہم
نعمت مال و دولت ہے، قرآن وحدیث میں مال و دولت کی بہت اہمیت بیان ہوئی ہے، حتی کہ
کعبتہ اللہ کے لئے جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہی لفظ مال و دولت کے لئے بھی
استعمال کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے کہ جَعَلَ اللہَ الْكَعْبَةَ البَيْتَ الْحَرَامَ قِيٰمًا لِلنَّاسِ (المائدة: ۹۲)
اللہ تعالیٰ
نے کعبہ کو جو کہ ادب کا مکان ہے لوگوں کے قائم رہنے کا سبب قرار دے دیا “ یعنی اس
کے باقی رہنے تک عالم کا باقی رہنا حتی کہ جب کفار اُس (کعبۃ اللہ) کو منہدم کر دیں
گے تو اس کے بعد جلدی قیامت آجائے گی۔(آسان بیان القرآن ۳، ص ۱۱۹۸)
نیز مال کے بارے میں ارشاد گرامی ہے کہ ولاتُؤْتُوْا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِيْ
جَعَلَ اللہُ لَكُمْ قِیٰمًا۔ (النساء: ۵) ”اور تم کم عقلوں کو
اپنے دو مال مت دو جن کو خدا تعالیٰ نے مایہ زندگی بتایا ہے“ مطلب یہ ہے کہ مال
قدر کرنے کی چیز ہے، اسے ان کو ابھی مت دو کہ ناقدری کر کے اڑا ڈالیں گے۔(آسان بیان القرآن ج ۱، ص ؍۴۵۹)
غور فرمائیں کعبۃ اللہ کے لئے لفظ قیام اور مال دولت کے
لئے بھی لفظ قیام کا استعمال ہوا ہے ، یعنی جیسے کعبۃ اللہ لوگوں کی حفاظت اور باقی
رہنے کا اہم ذریعہ ہے، اسی طرح مال و دولت بھی بقاء زندگی کا اہم ذریعہ ہے۔ حدیث
شریف میں مال ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے ،لہذا فضول خرچی سے پوری طرح احتراز
کرتے ہوئے مال کی قدر کی جائے اور حقوق واجبہ (حقوق اللہ اور حقوق العباد) کی ادائیگی
کے بعد بقیہ مال کی حفاظت کی جائے، اگر مال و دولت کی حفاظت اور اس کو بڑھانے کی
فکر وتدبیر نہ ہو گی تو بہت سے نقصانات رُونما ہوں گے۔ حضرت سفیان ثوری نے بہت قیمتی
بات بتائی ہے: كَانَ الْمَالُ فِيمَا مَضَى يُكْرَهُ فَأَمَّا
الْيَوْمَ فَهُوَ تُرْسُ الْمَؤْمِنِ وَقَالَ لَوْلَا هَذِهِ الدَّنَانِيْرُ
لَتَمَنْدَلَ بِنَا هَؤُلَاءِ الْمُلُوْكَ وَقَالَ مَنْ كَانَ فِي يَدِهِ مِنْ
هَذِهِ شَيْءٌ فَلْيُصْلِحْهُ فَإِنَّهُ زَمَانٌ إِنِ احْتَاجَ كَانَ أَوَّلَ مَنْ
يَبْذُلُ دِيْنَهُ وَقَالَ الْحَلَالُ لَا يَحْتَمِلُ السَّرَفَ ”صحابہ کے زمانے میں
مال مکروہ اور نا پسندیدہ سمجھا جاتا تھا، پس آج( تابعین و تبع تابعین کے دور میں)
وہ موسن کی ڈھال ہے، اور فرمایا کہ اگر یہ مال نہ ہو تا تو یہ بادشاہ لوگ ہمیں
ہاتھ کا رُومال (بے حیثیت) بنادیتے، پھر فرمایا جس کے پاس کچھ مال و دولت ہو وہ
اُس کو باقی رکھنے اور بڑھانے کی فکر و تدبیر کرے، کیونکہ اگر محتاج ہو جائے تو دنیا
حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنا دین ہی ہی بیچ دے گا اور فرمایا کہ حلال مال
اسراف و فضول خرچی کا احتمال نہیں رکھتا ہے۔ (شرح السنہ : ۲۹۱/۱۴)
یعنی روزی روٹی کے لئے بے دین اور بسا اوقات کفر وارتداد
کے گڑھے میں بھی جا پڑتا ہے۔ العیاذ باللہ ، اس لئے فضول اور شاہ خرچی سے بچا
جائے، اور ہر حالت میں میانہ روی یعنی مالداری ہو ی فقیری، بہر حال خرج و اخراجات
میں درمیانی صورت اختیار کرنا اسلام کی اہم تعلیم ہے، حدیث پاک میں اقتصاد یعنی میانہ
روی کو آدھی معیشت و زندگی قرار دیا گیا ہے، چنانچہ آپ کا ملی ملیالم اور شاد ہے: اَلْإِقْتِصَادُ فِي النَّفَقَةِ نِصْفُ الْمَعِيْشَةِ (المعجم الاوسط للطبرانی :۱۴۰)
اس کے بر خلاف مالداری میں بے دریغ مال و دولت لٹا دینا
اور فقیری و تنگدستی میں ہاتھ جوڑ کر بیٹھ جانا عقلمندی نہیں۔
عقلمندی اور حسن
تدبیر یہ ہے کہ جتنی آمدنی ہے اس کے مطابق خرچ واخراجات کا نظام بنائے، اور آمدنی
سے زیادہ خرچ کرنے کی عادت پڑی ہو گی تو بہت جلد فقیری و تنگدستی آپڑے گی، اور قحط
سالی اور پریشانی کے دنوں میں تو خرچ کو کم کرنے اور تقاضوں کو سمیٹنے کی بھر پور
کوشش کی جائے۔ حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ؎
بہ کو ہستان اگر باراں نہ بارد
بسالے دجلہ گردد خشک رُودے
اگر پہاڑوں پر بارشیں نہ ہو تیں تو صرف ایک ہی سال میں دجلہ جیسا دریائے فراواں (ٹھاٹے مارتا دریا ) خشک ہو کر چھوٹی سی نالی ہو جاتا۔اِس سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ فضول اور شاہ خرچی سے دیر سویر آدمی کنگال ہو جاتا ہے، اس کے بر خلاف تنگدست بھی اگر خرچ واخراجات میں اعتدال اور میانہ روی کو اپنائے گا تو اس کا نظام درست رہے گا، اس لئے خصوصاً اس دور میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل بہت دشوار اور مشکلات سے گھر اہوا نظر آتا ہے، جس کا تلخ تجربہ لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں خوب ہو رہا ہے۔ (الامان الحفیظ)
فضول خرچی بہت سے موقعوں پر ہوتی ہے اور ہر فضول خرچی انجام کار بر بادی لاتی ہے مگر شادی بیاہ کا موقع ایسا ہے کہ اُس سے ہر ایک کو واسطہ پڑتا ہے اور اس میں عمومی طور پر تقریباً ہر ایک مبتلا ہو تا ہے ،لہذا اس پر کچھ مفصل کلام انشاء اللہ کیا جائے گا۔
¦v¦