فقہی مضامین Author حضرت مفتی محمد صلاح الدین صاحب قاسمی مدظلہ
کیا ایک بکری ایک فیملی کی طرف سے کافی ہے؟

حضرت ابو ایوب انصاری فرماتے ہیں: كَانَ الرَّجُلُ فِيْ عَهْدِ النَّبِيِّ  ﷺيُضَحِّيْ بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ اَهْلِ بَیْتِہ کہ عہد رسالت میں ہر آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سےایک بکری کی قربانی کرتا تھا“۔ (ابن ماجہ :۳۱۴۷، ترندی: ۱۵۰۵)

اس حدیث کی بنیاد پر بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ قربانی میں ایک بکری پورے ایک گھرانے کی طرف سے کافی ہو جاتی ہے، علامہ شوکانیؒ یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر چہ اس گھر میں اس حدیث کی بنیاد پر سویاسوسے زائد افراد ہوں۔

 اب غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اس حدیث کا یہی مطلب ہے ؟ جبکہ یہ مطلب کی اعتبار سے درست نہیں، کیونکہ یہ مطلب عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے۔ بے غبار اور بالکل درست مطلب یہ ہے کہ صحابۂ کرام فخر و مباہات سے ہمیشہ دُور رہتے تھے، ہمیشہ وہی کام کرتے جس میں سادگی وعاجزی، تواضع و انکساری پائی جاتی ہو۔ اپنی شان و شوکت اور اظہار فخر کے لئے اپنی مالدار نابالغ اولاد اور اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی نہیں کرتے تھے ، اسی طرح اپنی غریب بالغ اولاد کی طرف سے بھی قربانی نہیں کرتے تھے، اس لئے کہ اسلام میں ان لوگوں پر قربانی واجب نہیں ہے ( گو مستحب ہے)۔ لیکن جہاں فخر و مباہات کا دروازہ کھلتا ہو، اپنی بڑائی اور شان وشوکت کے اظہار کا موقع ہو ، وہاں حضرات صحابہ بہت محتاط ہو جاتے تھے۔

اس مطلب کی دلیل میں کئی حدیثیں ہیں (۱) ابو سریحہ کہتے ہیں حَمَلَنِى أَهْلِي عَلَى الْجَفَا بَعْدَ مَا عَلِمْتُ مِنَ السُّنَةِ كَانَ أَهْلُ الْبَيْتِ يُضَحُّوْنَ بِالشَّاةِ وَالشَّاتَيْنِ وَالآنَ يُبْخِلُنَا جِيْرَانَا.

(ابن ماجہ: ۲۵۶۴)

اس روایت میں صراحت کے ساتھ ہے کہ لوگ (عہد رسالت میں) ایک یادو بکری ذبح کرتے تھے اور آج ہمارے پڑوس ہمیں بخیل کہتے ہیں، پڑوسیوں کے طعنہ کو برداشت نہ کر کے میرے گھر والے مجھے مجبور کرتے ہیں اور میں مجبوراً ( باوجو د واجب نہ ہونے کے ) ایک سےزائد قربانی گھر کے ہر فرد یا اکثر افراد کی طرف سے کرتا ہوں۔

 مقام غور ہے کہ اگر ایک ہی قربانی کافی ہو جاتی تو دو بکریوں کی قربانی کی کیا ضرورت تھی ؟ جبکہ اس روایت میں دو بکریوں کا بھی ذکر ہے۔ طبرانی کی روایت میں مذکور ہے کہ اب میں گھر کے ہر فرد کی طرف سے قربانی کرتا ہوں حَتّٰی أَنِّيْ لَاُ ضَحِّىْ عَنْ كُلٍّ مِنْهُمْ.

(طبرانی کبیر :۳۰۵۸)

 (۲) ابو سریحہ حذیفہ بن اسید کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ اپنے گھر والوں کی طرف سے (واجب نہ ہونے کی وجہ سے عمداً) قربانی نہیں کرتے تھے کہ کہیں اس کو سنت نہ بنالیا جائے۔ (سنن بیہقی : ۱۸۸۱۴)

یعنی جب شریعت میں نابالغ اولا دوغیرہ اور غریبوں پر قربانی واجب نہیں ہے تو بلاوجہ و بے ضرورت تکلف کر کے ان سب کی طرف سے قربانی کرنے پر شریعت پابند نہیں بناتی ہے۔

(۳) حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے قربانی کے ایام میں دو سینگ والے مینڈھے خریدے، عید کی نماز کے بعد ایک کو ذبح کرنے کے بعد فرمایا اے اللہ ! یہ قربانی (قربانی کا ثواب) میری اُمت کے ان تمام افراد کے لئے ہے جو توحید ورسالت کی گواہی دیں، پھر دوسرے مینڈھے کو لایا گیا تو آپ ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے ذبح کیا اور فرمایا اے اللہ ! یہ قربانی محمد (ﷺ ) اور اٰل محمد (ﷺ ) کی طرف سے ہے۔ (مسند احمد: ۲۷۱۹۰)

 (۴) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺنے ایک بکری اپنی طرف سے ذبح کی اور دو سری اپنی اُمت کے ان افراد کی طرف سے ذبح کی جو ( وسعت نہ ہونے کی وجہ سے) قربانی نہیں کر سکے۔

(ترمذی:۱۵۲۱)

حضرت ابو رافع کی حدیث میں صراحت ہے کہ آپ ﷺ نے ایک مینڈھا پوری امت مسلمہ کی طرف سے ذیح فرمایا اور حضرت جابر کی حدیث میں ہے کہ ایک مینڈھا اپنی امت کے ان افراد کی جانب سے ذبح فرمایا جو (وسعت نہ ہونے کی وجہ سے) قربانی نہیں کر کےیا قیامت تک نہیں کر سکیں گے)۔

لہذا ان احادیث کا واضح مطلب یہی ہے کہ گھر کا ایک قیم اور ذمہ دار شخص اپنی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا اور ثواب میں نیت کے ذریعے) گھر کے سبھی افراد کو شریک کر لیتا تھا، یہ مطلب نہیں کہ ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہو جاتی تھی،ورنہ حديث مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضِّحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصلَّانَا. (ابن ماجہ: ۳۱۳) جو شخص قربانی کی استطاعت رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے “بے معنی اور بے کار ہو جاتی ہے۔ اگر ان احادیث کا ظاہری مطلب مراد لیا جائے تو صرف ایک گھرانہ ہی نہیں بلکہ ایک بکری پوری امت ( حضور ﷺ کے زمانے سے لے کر قیامت تک) کی طرف سے کافی ہو سکتی ہے، جیسا کہ خود حضور ﷺ نے پوری امت کی طرف سے قربانی کا فریضہ انجام دیا ہے، حالا نکہ کوئی اس کا قائل نہیں۔ لہذا ابو ایوب انصاری کی حدیث کا مطلب یہی ہے کہ قربانی ایک کی طرف سے ادا ہو گی اور ثواب سب کو پہنچایا جا سکتا ہے۔

نیز اگر ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہو جائے تو گائے اور اونٹ میں سات سات حصے متعین کرنے کے کیا معنی؟ چھوٹا جانور دسیوں بلکہ سیکڑوں کی طرف سے کافی ہو جائے اور بڑا جانور زیادہ سے زیادہ سات افراد کی طرف سے کافی ہو...... !!

مسلم شریف (رقم:۱۳۱۸) میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے سال ہم لوگوں (صحابہ) نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اُونٹ سات افراد کی طرف سے اور گائے سات افراد کی طرف سے قربانی کی  قَالَ نَحَرْنَامَعَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ عَامَ الْحَدَيْبِيَّةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ  اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ ایک اونٹ اور ایک گائے کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ سات سات افراد شریک ہو سکتے ہیں، اگر ایک بکری پوری ایک فیملی کی طرف سے کافی ہو سکتی ہے تو ان بڑے جانوروں میں کیوں تحدید کی گئی ؟

جبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے خود سات بکریوں کو ایک اونٹ (اور ایک گائے) کے برابر قرار دیاہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ”ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ !میرے اوپر ایک اونٹ کی قربانی واجب ہے، میں مالدار ہوں مگر اُونٹ کہیں موجود نہیں ہے، نبی اکرم ﷺ نے اس کو سات بکریاں خرید کر ذبح کرنے کا حکم فرمایا، حدیث کے الفاظ ہیں: إِنَّ عَلَىٰ بَدَنَةً وَأَنَا مُوَسِرٌوَلَا أَجِدُهَا فَاشْتَرِيَهَا،فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ أَنْ يَبْتَاعَ سَبْعَ شِيَاهٍ فَيَذْبَحْنَ.   

(مسند احمد : ۲۸۳۹؛ ابن ماجہ : ۳۱۳۶)

 نیز ”ایک گھر والے“ کی تعریف کیا ہے ؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شوہر ہوئی اور ان کے نابالغ بچے، ان کے علاوہ ماں باپ مستقل بالذات لوگ ہیں کسی کے تابع نہیں، جب یہی لوگ تابع نہیں تو دوسرے مثلاً بھائی، بہن وغیرہ کیسے تابع ہو جائیں گے ، سوال یہ ہے کہ صرف ایک جگہ اور ایک مکان میں مل جل کر ساتھ ساتھ رہنے سے کیا وہ ایک گھر والے ہو جائیں گے ؟؟؟  ؎      بریں عقل و دانش باید گریست

 حضرت ابو ایوب انصاری کی حدیث میں صرف اتنا جملہ ہے کہ ”ہر آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا .. !! ایک گھر والے “ شرعاً کون ہوتے اگیا؟ اور کون نہیں ہوتے؟ کیا اُس وقت گھر کے ہر فرد پر قربانی واجب تھی ؟ اور حضرت ابوایوب انصاری اور صحابہ کرام واجب قربانی کی ادائیگی میں سب کی طرف سے ایک ہی بکری کی قربانی کرتے تھے ؟ ان سوالات کو حل کرنے کے لئے شریعتِ اسلامی کے عمومی قوانین و ضوابط سے روشنی حاصل کرناضروری ہو گا،” صرف ایک گھر والے “ کے جملہ سے خود دھو کہ کھاتے ہوئے یادوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنی منگھڑت توضیح اور تشریح غیر معتبر ہو گی۔

 نیز احکام شرع پر عمل ہر شخص پر برابر برابر ضروری ہے، ایک آدمی کی نماز، ایک آدمی کاروزہ ایک آدمی کی زکوۃ ، ایک آدمی کاج ، اسی طرح دوسری عباد میں جب پورے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوتی ہیں تو صرف ایک عبادت ”قربانی “ سب کی طرف سے کیسے کافی ہو سکتی ہے !!!

(مستفاد: اعلاء السنن ، ج ۱۷، ص / ۲۰۸-۲۱۱)

¦v¦