اصلاحی مضامین Author حضرت مفتی محمد صلاح الدین صاحب قاسمی مدظلہ
شادی بیاہ اور فضول خرچی

مال و دولت کی قدردانی اور فضول خرچی سے حفاظت ایک اہم اسلامی تعلیم ہے، انسانی زندگی میں خوشی و مسرت کے انفرادی اور اجتماعی سبھی موقعوں پر بالخصوص شادی بیاہ میں فضول خرچی سے بچنا بہت ضروری ہے ، مگر عملی طور پر اس کو بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن سمجھا جاتا ہے، لیکن لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں الحمد للہ جو شادیاں ہو رہی ہیں ان پر ایک نظر ڈالیں تو ساری مشکلات آسان اور ناممکن چیزیں ممکن ہو گئی ہیں، اسی وجہ سے ایک صاحب (جن کے فرزند کی شادی بھی ان ہی دنوں ہوئی) کہنے لگے کہ جو کام ہم خوشدلی سے پہلے کر سکتے تھے آج ہم مجبور ہو کر کر رہے ہیں، ذرا غور فرمائیں کہ لاک ڈاؤن میں کتنی سادگی اور مندرجہ ذیل آسانیوں کے ساتھ نکاح کی عبادت انجام پارہی ہے۔

 (۱) حکومت کی طرف سے جتنے افراد کو اجازت تھی بس اُتنے ہی لوگ ( جو ۲۵ سے ۵۰ کے درمیان ہوں گے ) شریک رہے۔ (۲) نکاح سے پہلے اور نکاح کے بعد کی مروجہ رسومات اور ضیافتوں سےاحتراز دیکھا گیا۔(۳) شادی محلوں اور اُن سے متعلق بیجا اخراجات سے حفاظت ہوئی۔ (۴) شادی میں شرکت کی دعوت دینے کے لئے تھکا دینے والی محنتوں سے اور وقت کی بربادی سے نجات ملی۔ (۵) عورتوں اور مردوں کے اختلاط وبے پردگی کے گناہوں سے حفاظت نصیب ہوئی۔ (۶) ایک نہ ختم ہونے والی شکایتوں اور اس کے نتیجے میں آپسی رنجشوں اور ڈوریوں سے نجات ملی۔ (۷) نام و نمود اور شہرت و ریا کاری سے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے برکتی سے بچنا نصیب ہوا۔

الحمد للہ ان دینی اور دنیوی فائدوں کے ساتھ سب سے بڑی نعمت اتباعِ سنت اور اس کی برکتوں کی عطا ہوئی۔

اصل بات یہ ہے کہ لوگ جتنے کم ہوں گے اُسی قدر کاموں کا بوجھ ہلکا اور اخراجات بھی کم ہوں گے ، اور دوسری پریشانیوں سے بھی نجات ملے گی۔

 غور کرنے سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ شادی بیاہ میں ہونے والی فضول خرچی اور شرعی ضرورتوں سے زائد چیزیں یا تو معاشرہ کے رواج کی پابندی یا نام و نمود کی وجہ سے ہیں اور یہ دونوں مضر اور نقصانات سے بھرے ہوئے ہیں، لوگ کیا کہیں گے ؟ معاشرہ میں عزت کیسے باقی رہے گی ؟ صرف ان بے بنیاد خیالات اور فرضی عزت کی وجہ سے ہفتوں بلکہ مہینوں تیاری ہوتی ہے صرف ایک دو دن بلکہ چند گھنٹوں کے لئے۔

یادرہے کہ فضول خرچی سے شہرت تو ہوتی ہے قبولیت نہیں، جبکہ شہرت باعث زوال اور قبولیت سبب برکت ہے، حدیث شریف میں صاف الفاظ میں ارشادِ گرامی ہے کہ    اِنَّ أعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً اَيْسَرُ ه مُؤْنَةً      وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو“۔ (مسند احمد : ۲۳۵۲۹)

نکاح میں اس قدر فضول خرچی اور فضول کام ہوتے ہیں کہ عموماً نکاح باعث برکت ہونے کے بجائے بے برکتی اور سقوط و زوال کا سبب ہوتا ہے ، ایک شاعر نے اپنی لختِ جگر کی شادی میں جہیز دینے کے لئے اپنا مکان تک فروخت کر کے سب کچھ دے ڈالا، لیکن سسرال والوں نے جہیز کی کمی کا طعنہ دے کر دلہن کو نذر آتش کر دیا، شاعر مذکور کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو روتے ہوئے اپنی مردہ بیٹی کی نماز جنازہ میں حاضر ہوئے اور یہ شعر پڑھنے لگے۔

اب آیا خیال اے آرامِ جاں اس نامرادی میں

کفن دینا تجھے بھولے تھے ہم سامانِ شادی میں

اکثر و بیشتردُلہا اور اس کے گھر والوں کی طرف سے کثرتِ جہیز اور نکاح سے پہلے اور بعد ضیافتوں کے مطالبات کا ایک سلسلہ رہتا ہے ، اور ہرشخص اپنی حیثیت سے کہیں زیادہ اخراجات کا بوجھ برداشت کر کے بہت سی پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔

نکاح میں نام و نمود یا رواج کی پابندی کی وجہ سے ہزاروں گھر اجڑے ہیں، بدکاریاں آسان ہوئی ہیں، سودی قرضوں کی وجہ سےمعیشت تباہ ہوئی ہے اور ہزاروں لاکھوں لڑکیاں اور اُن کے والدین اسبابِ شادی کا انتظام کر سکنے کی بنا پر خون کے آنسو روتے روتے زندگیاں ختم کر رہے ہیں۔ (الامان الحفیظ)

لہذا احقر بہت ہی مخلصانہ گذارش کرتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے ختم ہونے کے بعد بھی اس طریقے کو (جو مجبوراً عمل میں آگیا) خوشی اور ضامندی کے ساتھ باقی رکھیں، جب مناسب جوڑا مل جائے تو کم وقت میں ضروری تیاری کر کے نہایت سادگی کے ساتھ یہ عبادت ادا کی جائے تو انشاء اللہ زوجین اور ان کے اہل خانہ کے حق میں بے شمار برکتوں کا ذریعہ اور نیک معاشرہ وجود میں آنے کا سبب بنے گا۔

¦v¦