اسلام
نہایت پاکیزہ مذہب ہے ، اور تمام چیزوں میں پاکیزگی چاہتا ہے۔ انفرادی، اجتماعی
خانگی، بیرونی، معاشرتی، معاملاتی، اخلاقی اور عباداتی وغیرہ تمام زندگیوں میں
بہتری و پاکیزگی، اور تہذیب و عمدگی ہی اسلام کا اصول ہے، اگر عمدگی و پاکیزگی نہ
ہو تو اس کو غلط بلکہ ظلم قرار دیا گیا ہے، چنانچہ ظلم کی یہی تعریف کی گئی ہے وَضع
الشيءِ في غيرِ مَحلِّه فَهو ظلمٌ (الأساليب والإطلاقات العربیة لأبى المنذر المنیادی:۱؍۷۲) کہ جو چیز
جہاں رکھنے کی ہے اس کو وہاں نہ رکھا جائے یہ ظلم ہے“۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ مرد اور عورت کو پیدا فرما
کر دونوں کی زندگی کے اصول و قوانین بھی بتا دیئے ہیں، اگر اُن اصول و قوانین کو
اپنا یا جائے تو معاشرہ پر امن رہتا ہے ، ورنہ تباہ و برباد اور نظام درہم برہم ہو
جاتا ہے۔ انہیں اصول و قوانین میں سے عورت کا پردہ بھی ہے ، اسلام نے عورت کے ہر
جز کی حفاظت کی ہے اور شرم و حیا کی ترغیب بلکہ زبر دست تاکید کی ہے، اسی لئے زنا
کے قریب جانے سے بھی روکا گیا ہے کہ زنا کے قریب جانا بھی بڑا بلکہ بڑی برائی اور
بے حیائی ہے، کیونکہ قریب
جانے سے زنا تک پہنچنا آسان ہو
جاتا ہے۔
اور حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے زنا اور اس کے اسباب و مقدمات سے منع فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: الْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالْأَذْنَانِ زِنَاهُمَا الْإِسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ وَالرَّجُلُ زِنَاهَا الْخُطٰى وَالْقَلْبَ يَهْوِيْ وَيَتَمَنَّى وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُه (صحیح مسلم:۲۶۵۷) ”آنکھوں کا زناد یکھنا، کانوں کا زناسننا، زبان کا زنابات کرنا، ہاتھ کا نا پکڑنا، پاؤں کا زنا چلنا ہے اور دل تمنا و خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے “ یعنی کبھی واقعی زنا ہو ہی جاتا ہے اور کبھی نہیں۔ زناہو جاتا ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے واضح طور پر فرمایا: مَاتَرَكْتُ بَعْدِىٰ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ.( بخاری: ۵۰۹۶، ومسلم: ۲۷۴۰) کہ میں مردوں پر عورتوں سے زیادہ سخت کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ۔ یعنی عورت کا فتنہ تمام فتنوں میں زیادہ سخت اور بے حد خطر ناک ہے، اور اس کی وجہ سے تمام فتنے آسان ہو جاتے ہیں، چنانچہ زنا کی وجہ سے انسان بغض و عداوت، لڑائی جھگڑا اور قتل وغارت گری تک انجام دیدیتا ہے حتی کہ بعض مرتبہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
ایک
اور حدیث میں ارشاد فرمایا: اِيَّاكُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَى
النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُوْلَ اللہَ أَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ
الْحَمْوُ الْمَوْتُ (بخاری: ۵۲۳۲، مسلم : ۲۱۷۲) کہ
لوگو ! عورتوں پر داخل ہونے سے بچو اور پر ہیز کرو، ایک شخص نے سوال کیا یارسول
اللہ ! دیور کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ فرمایا دیور موت ہے “۔ ہم سب کے
لئےلمحہ فکر یہ اور مقام عبرت ہے کہ اگر دیور موت ہو تو دوسرے اجنبی لوگوں کے بارے
میں کیا نہیں کہا جاسکتا، جبکہ دیور سے جہاں زیر دست خطرہ ہے اہیں دوسری حیثیت سے
امن بھی ہے کہ بھائی کا احترام پیش نظر رہتا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: الدُّنْيَا حَلْوَةً خَضِرَةً وَإِنَّ اللہَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيْهَا فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ فِي النِّسَاءِ.(مسلم:۲۷۳۲) دنیا ہری بھری اور سرسبز و شاداب ہے اور اللہ تعالیٰ دنیا میں تمہیں جب بتانے والے ہیں ، سو وہ دیکھیں گے تم اس میں کیسے عمل کرتے ہو، پس تم دنیا سے بچھو اور عورتوں سے بچھو اپنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ جو واقع ہو اوہ عورتوں سے متعلق تھا“۔ امت مسلمہ کو عورتوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ آپﷺنے ارشاد فرمایا: الْمَرْأَةُ عَوْرَةً فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ. (سنن ترمذی: ۱۱۷۳)”عورت ایک پوشیده چیز ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو غور سے دیکھتا ہے۔“ یعنی عورت کے لئے ضروری چیز ہے کہ وہ گھر کے اندر رہے، اگر بے ضرروت اور بے پر دو گھر سے نکلے گی تو شیطان اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے، اس کو بھی گمراہ کرتا ہے اور اس کے ذریعے لوگوں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔
مذکورہ احادیث شریفہ کی روشنی میں ہم سب پر ضروری
ہے کہ اپنے معاشرہ اور سوسائٹی کاجائزہ لیں اور تھوڑی دیر کے لئے اپنے گریبان میں
منہ ڈال کر دیکھیں کہ آج مغربی کلچر کی دیکھا دیکھی عورت کو کس طرح باہر نکالا
جارہا ہے اور خود عورت بھی کس طرح گھر سے باہر نکلتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہے ، جب
کہ بد نگاہی و بد نظری عام وبا کی طرح معاشرہ میں پھیل چکی ہے، اور آئے دن عورت کو
مختلف حیلوں مثلاً کبھی کسب و کمائی، کبھی تعلیم و ترقی اور کبھی دوسرے خوبصورت
عنوان سے، گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ حالانکہ شریعت اسلامیہ میں
کسب و کمائی کی ذمہ داری مرد پر ہے اور عورت کا نان نفقہ مختلف لوگوں پر فرض کیا گیا
ہے، چنانچہ نکاح تک باپ پر، نکاح کے بعد شوہر پر اور بوڑھی ہو جانے کے بعد اولاد
پر واجب ہے، الغرض کسی بھی موقع پر شریعت نے کسب و کمائی کی ذمہ داری عورت پر نہیں
رکھی،تعلیم و ترقی اہل مغرب کازہر میں بجھا ہوا ایک ایسا خوبصورت عنوان ہے، جس کی
زد میں اچھے خاصے دیندار اور شریعت و سنت سے محبت رکھنے والے لوگ بھی آجاتے ہیں،
اور مغربی تہذیب سے متاثر افراد کا پوچھنا ہی کیا، جبکہ وہ تعلیم و ترقی (جو اسلامی
تعلیمات کے خلاف و منافی ہے، جس سے نام تو اسلام کا اور حقیقت غیروں کی ہو جائے) ایک
صاحب عقل کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہو سکتی۔ الغرض آج ان مفاسد کی وجہ سے بے پردگی
اور بے پردگی کی بنا پر بد نگاہی و بد نظری عام ہو چکی ہے ، اور بد نگاہی کی نحوست
نے معاشرہ کو تباہی کے دہانے کھڑا کر دیا ہے، یہاں تک کہ معاشرتی نقصانات کے ساتھ
ایمان کا بھی سودا ہو رہا ہے۔