ماہِ
بیع الاول اس اعتبار سے عظیم الشان اور بابرکت ہے کہ اس مہینے کی نو؍۹یا بارہ ؍۱۲ تاریخ کو
محسنِ انسانیت ، رحمتہ للعالمین جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔
اللہ کے رسول ﷺ کی ولادت یقیناً بہت بڑی سعادت ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔
آئے دنیا میں بہت پاک و مکرم بن کر
کوئی نہ آیا مگر رحمت عالم بن کر
آپ
کی تشریف آوری سے ایک طرف ظلم وستم، کفر و شرک اور ظلمت و تاریکی کا خاتمہ ہوا تو
دوسری طرف عدل و انصاف، ایمان و یقین اور نور وروشنی کو خوب فروغ حاصل ہو۔ حضرت شیخ سعدیؒ نے مختصر الفاظ میں ایک بہترین نقشہ کھینچا ہے۔
بَلَغَ الْعُلىٰ بِكَمَالِهِ
كَشَفَ الدُّجىٰ
بِجَمَالِهِ
حَسُنَتْ جَمِيعُ خِصَالِہ
صَلُّوْاعَلَيْهِ وَالِه
قَسِیْمٌ جَسِيمٌ وَسِیمٌ نَسِيْمٌ
شَفِيعٌ
مُطَاعٌ نَبِيٌّ كَرِيْمٌ
یعنی اپنے کمال سے بلندی کو پہنچ گئے، آپ کے
جمال سے تاریکی چھٹ گئی، آپ کی تمام عادتیں نہایت خوبصورت ہیں، آپ ﷺ اور آپ کے آل
پر اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرمائے، آپ ﷺ خوبصورت ، نہایت خوبصورت، گنہگاروں کے
سفارشی، قابل اتباع، نبی بر حق، کریم و سخی ہیں۔ شاعر رسول حضرت حسّان بن ثابت نے
بڑی اچھی بات کہی کہ
مَا
إِنْ مَدَحْتُ مُحَمدًا بِمَقَالَتِيْ
وَلَكِنْ
مَدَحْتُ مَقَالَتِيْ بِمُحَّمَدٍ
یعنی اشعار اور قصیدوں سے میں نے محمد ﷺ کی تعریف
نہیں کی بلکہ محمد ﷺکے ذریعہ میرے اشعار کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوا۔
الغرض قصیدے، اشعار ، تقاریر ، خطبات اور رسائل
وغیرہ کے ذریعے کہنے والوں نے بہت کچھ کہا، اور لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا، آج
بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک انشاء اللہ جاری رہے گا، یہ ایک نا پیدا کنار
سمند رو دریا ہے۔ لیکن سیرت نبوی کے ساتھ یہ نا انصافی نا قابل برداشت ہے کہ ربیع
الاول کی آمد کے ساتھ ساتھ مسلمان کمربستہ ہو کر چند جلسے جلوس، محفل و مجلس اور
فاتحہ وغیرہ کرکے شیرنی اور ضیافتوں کا لطف اٹھا کر خوش ہو جائیں اور اس خوش فہمی
میں مبتلا ہیں کہ ہم نے سیرت کا حق ادا کر دیا اور ہم رسول اللہ ﷺ کے سچے عاشق ہیں۔
جبکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آپ علیہ السلام کے سچے عاشق تھے۔ قرآن و
حدیث کی گواہی کے مطابق دین اسلام پر جان قربان کرنے والے تھے۔ صحابہ کرام سے زیادہ
اگر کوئی محبت کا دعویٰ کرے تو وہ بقول حضرت مفتی محمد شفیع صاحب احمق اور باؤلا
ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ سے حقیقی محبت وہی ہو گی جو قرآن وحدیث اور صحابہ کرام کے
بتائے ہوئے طریقے پر ہو، جس میں نفس کی خواہش کو کوئی دخل نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے
صاف اعلان کیا ہے کہ اے نبی! آپ کہدیں کہ اگر تمھیں اللہ کی محبت چاہیے اور اللہ
سے محبت کی خواہش ہے تو میری اتباع کرو۔ (سورہ آل عمران : ۳۱)
یہ آیت کریمہ وضاحت کے ساتھ بتا رہی ہے کہ اتباع
رسول کے بغیر نہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو گی نہ ہی رسول کی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ
کے دور میں جب اسلامی تاریخ مقرر کرنے کی فکر ہوئی تو بعض حضرات نے یہ رائے دی کہ
میلادِ نبوی (نویں تاریخ ہو یا بارہویں) سے اسلامی سال کی ابتداء مناسب ہے، لیکن
اکابر صحابہ کرام نے یہ رائے اس لئے قبول نہیں کی کہ اسلام میں شخصیات کی ولادت
اور وفات وغیرہ کو یاد گار منانے کی کوئی روایت نہیں ہے، پھر متفقہ طور پر سالِ
ہجرت کا انتخاب کیا گیا کہ مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت سے اسلام کو عروج و کمال حاصل
ہوا معلوم ہوا کہ شرعاً بارہویں کی کوئی حقیقت نہیں۔ لہذ ا نفسانی خواہشات کے مطابق
بارہویں وغیرہ منانے کے بجائے حقیقی معنی میں آپ اسلامی زندگی کے ہر شعبہ میں پیروی
کریں، خواہ انفرادی، اجتماعی، خانگی، بیرونی، معاملاتی اور معاشرتی زندگی ہو یا
اخلاقیات، عبادات، اعتقادات اور آداب کا باب ہو ۔ بقول ڈاکٹر اقبال کے؎
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ
جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں